یونان میں سلطنت عثمانیہ کی مساجد کا حال
دوستو جہاں ترکش عدالت اور ترکش صدر رجب طیب اردوان نے آیا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو وہیں دنیا کے مغربی ممالک سے مذمتی بیانات آنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ان ممالک میں ایک ملک یونان بھی ہے جس نے ترک صدر کے اس قدم کی خوب مذمت کی۔ آج کی ویڈیو میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ خود یونان میں سلطنت عثمانیہ کے دور کی تاریخی مساجد کے ساتھ کیا کیا گیا۔ کیا ان کی وہی حالت موجود ہے اگر ہے تو کیسی ہے اور اگر نہیں ہے تو وہ مساجد آج کل کن حالات میں ہیں۔
![]() |
The Ottoman
|
تاریخی اعتبار سے یونان انتہائی اہمیت کا حامل ہے یونان یا جمہوریہ ہیلینیہ جنوب مشرقی یورپ میں جزیرہ نما بلقان کے نشیب میں واقع ملک ہے۔ یونان کی سرحدوں پر شمال میں البانیہ، مقدونیہ اور بلغاریہ اور مشرق میں ترکی واقع ہے- مغرب میں بحیرہ ایونی اور جنوب میں بحیرہ ایجین واقع ہے-یونان کو فنون لطیفہ کی ماں بھی کہا گیا ہے۔ یہاں سنگ مرمر افراط سے ملتا تھا، لہٰذا یونان نے فن تعمیر میں غیر معمولی ترقی کی۔ جمہوریت کا تصور سب سے پہلے یونان میں قائم ہوا اور وہاں سے یہ طرز حکومت دنیا کے دوسرے ملکوں تک پہنچا۔
طویل جدوجہد کے بعد 1830 میں سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونے والے یونان اور عثمانی حکومتوں کے درمیان تعلقات میں ہمیشہ تناؤ رہا لیکن 1950 کے عشرے کے وسط میں قبرص کے مستقبل کے سوال پر بین الاقوامی تنازع کھڑے ہونے تک یونان اور جمہوریہ ترکی کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے۔
یونان کے ترکی سے الگ ہونے پر سلطنت عثمانیہ کی3000 کے قریب یادگاریں یونان میں ہی رہ گئیں۔ لیکن یہ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل عمارتیں اور یادگاریں خستہ حالی کا شکار ہیں۔
کئی سال تک ان عمارتوں کی تزئین و آرائش و زیبائش کی جاتی رہی مگر ان کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا حتی کہ ایک مسجد کو پہلے ہسپتال اور پھر یونانی فوج کیلئے جیل کے طور پر استعمال کیاگیا۔
ایک دوسری مسجد کو پہلے ایک کانفرنس ہال میں تبدیل کیا گیا اور پھر اس میں عجائبات رکھ کر اسے میوزیم کا نام دے دیا
گیا۔
سوال یہ ہے کہ تب اسے ان عمارتوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا رہا ہےتو ان کی موجودہ صورتحال کیا ہے کیا ان کی اب بھی دیکھ بھال کی جاتی ہے یا نہیں۔
18ویں صدی میں بنائی جانے والی مسجد تزیستراکش میں عبادت یا نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے اور اس کے میناروں کو بھی شہید کر دیا گیا ہے۔ اب اس کو مقامی ثقافت کے میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
16ویں صدی میں بنائی گئی قدیم مسجد کو ترائینوں کہا جاتا تھا اس کو پہلے یونانی پارلیمنٹ کے طور پر استعمال کیا گیا اور اب اس مسجد کی عمارت کو تھیٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
15ویں صدی میں بننے والی مسجد فتح کو پہلے یونانی فوج جیل کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے جبکہ اب اسے نمائشوں کے لیے مختص کیا جا چکا ہے۔
15ویں صدی میں ہی بننے والی ایک اور حمزہ بے مسجد کے میناروں اور ہر اس چیز کو جس سے اس کو مسجد کہا جا سکتا تھا اسے شہید کر کے اسے غیر اخلاقی فلمیں دکھانے والے تھیٹر میں بدل دیا گیا اور اب اس میں کام روک کر تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔
15ویں صدی میں ہی بنائی گئی مسجد بیرکلی کو پہلے بازار کا حصہ بنا دیا گیا اور اب اسے بالکل تباہ حال حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں تاریخی مقامات کو بچا کر رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے جو کہ عالمی قوانین اور ملکی آئین کے مطابق لازمی جزو ہے مگر یونان میں موجود ہزاروں تاریخی عمارتوں کو یا تو تباہ کر دیا گیا یا پھر ان کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے
0 Comments